About Me

header ads

مفتی تقی عثمانی اور ذاکر نائیک کی ملاقات

 

مفتی تقی عثمانی صاحب نے ذاکر نائیک کو الگ کمرے میں بُلا کر کیا کہا؟اس کے بعد ذاکر نائیک آپ کا دیوانہ ہو گیا......جانئے اس تحریر میں ...... بڑی راز کی باتیں
مفتی تقی عثمانی صاحب نے ذاکر نائیک کو الگ کمرے میں بُلا کر کیا کہا؟اس کے بعد ذاکر نائیک آپ کا دیوانہ ہو گیا......جانئے اس تحریر میں ...... بڑی راز کی باتیں

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ

اکابرین کاآداب مکالمہ !

یہ ہمارے دورہ حدیث کا سال تھا۔ استاد محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم ملائشیا کے سفر سے واپس تشریف لائے۔ کلاس کے کچھ ساتھیوں کے بار بار درخواست پر استاد محترم نے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے ساتھ ملاقات کی رویداد سنائی۔

فرمایا جب ہم ملائشیا پہنچے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے فون کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی،چونکہ میرا بھی عرصے سے ان سے ملاقات کا ارادہ تھا لیکن وقت نہیں مل سکا،اب کے بار بھی مصروفیت زیادہ تھی اسلئے میں نے ان کے ہاں حاضری سے معذرت کی البتہ ایک دوست کے مکان کا ایڈریس ارسال کیا کہ آپ وہاں تشریف لاسکتے ہیں تو میں بھی وہی پہ حاضر ہو جاوں گا۔

 

وقت مقررہ پر ہم اس مکان پر پہنچے ،ڈاکٹر صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ابتدائی ملاقات میں میں نے ان کیساتھ ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستانی حکومت نے ان کی شہریت ختم کردی۔انہی باتوں میں میں نے ان سے کہا کہ کھانے کے بعد میں آپ سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا ہوں۔

 

کھانے کے بعد ہم دوسرے کمرے گئے،وہاں میں نے ان سے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ عرصے سے میرے دل میں چند باتیں تھیں کہ آپ سے عرض کروں۔

میں سمجھتا ہوں کہ تقابل ادیان کے موضوع پہ آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں اس لئے اگر کوئی مجھ سے کہے کہ عیسائیت پہ مجھ سے مباحثہ کرے تو میں یہی کہوں گا کہ اس موضوع پہ آپ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے مباحثہ کیجئے وہ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں (حالانکہ استاد جی کی ایک کتاب "عیسائیت کیا ہے؟" کافی مقبول کتاب ہے جس کو پڑھ کر کئی عیسائی اسلام قبول کرچکے ہیں۔)

آگے میں نے کہا کہ آپ اس لحاظ سے بھی مجھ سے بہتر ہے کہ آپ کے ہاتھ پر کئی غیر مسلم اسلام قبول کر چکے ہیں،اسی طرح بین الاقوامی فورم پر اسلام کی تبلیغ کرنا آپ کی بہت بڑی خدمت ہے۔(استاد جی نے فرمایا کہ جب آپ کسی ایسے شخص سے بات کریں جن کی بعض باتیں درست ہوں اور بعض غلط ۔تو پہلے درست اور اتفاقی باتوں کا تذکرہ کریں ،تاکہ ان کو محسوس ہو کہ آپ کو ان کی ذات سے عداوت نہیں ہے۔)لیکن چند باتیں ایسی ہیں جن میں میں آپ کو غلطی پر سمجھتا ہوں،میں ان کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔

لیکن ان باتوں سے پہلے آپ یہ یاد رکھیئے کہ جب کوئی بندہ اپنے متعلقہ میدان سے باہر قدم رکھتا ہے جس میدان میں ان کو مہارت نہ ہو بلکہ وہ اس کے تخصیصی موضوع سے باہر ہو تو اس میدان میں قدم رکھنے سے انسان ٹھوکرے کھاتا ہے،اور ان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔جن کے سبب علماء عصر ان کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اپنے تقریر و تحریر میں لوگوں کو ان غلطیوں کی نشاندہی کراتے ہیں،انجام کار یہ شخص رفتہ رفتہ مٹ کر قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔اسلئے کوشش کیجئے کہ کوئی ایسا قدم مت اٹھائے کہ جس کے سبب جمہور علماء آپ کے خلاف ہوجائے ورنہ آپ کا جو اصل میدان اور کام ہے وہ بھی متاثر ہوکر ختم ہوجائے گا۔

(استاد جی نے اس دوران برصغیر کے  کئی منحرف سوچ رکھنے والے مذہبی سکالرز کا تذکرہ فرمایا کہ اپنے میدان سے نکل کر انہوں نے کتنی غلطیاں کی اور انجام کیا ہوا۔)

فرمایا میں نے ان سے کہا کہ فقہ آپ کا اصل میدان نہیں،آپ نے جب فقہی مسائل چھیڑے تو آپ سے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں۔جس کے بنا پر جمہور علماء نے آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے آپ سے اختلاف کا اظہار کیا،نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کی نظر میں آپ کی شخصیت متنازع بن گئی،اسلئے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ تقابل ادیان پہ اپنا کام جاری رکھیئے اور جس موضوع پہ عبور نہ ہو اس کو موضوع سخن مت بنائیے۔

استاد جی نے فرمایا میں نے مناظرانہ انداز  میں ان سے بات نہیں کی بلکہ خیرخواخانہ انداز اور نیت سے ان سے بات کی تو ان پہ اتنا اثر ہوا کہ مجھ سے معافی مانگنے لگے کہ میں نے تو آپ کے بارے میں بھی کچھ نامناسب باتیں کی ہیں،میں نے کہا کہ میں اپنی ذات کے بارے میں آپ سے نالاں نہیں ہوں۔(فرمایا حالانکہ مجھے وہ بیانات مل چکے تھے لیکن میں نے ان کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھا بلکہ انہوں نے خود ہی تذکرہ کیا۔)

وہاں انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور مجھ سے رابطہ نمبر لے کر وقتا فوقتا رابطہ کرتے رہے،اگلے روز ایک مسجد میں ہم نے جمعہ پڑھایا جب باہر نکلے تو مسجد کے سامنے ڈاکٹر صاحب کھڑے تھے۔میں نے پوچھا آپ یہاں کیسے پہنچے؟ فرمایا بس ویسے ہی آپ سے ملاقات کا دل کرتا رہا اسلئے آیا ہوں۔

استاد جی نے فرمایا جب میری واپسی تھی تو دیکھا کہ ائیرپورٹ پر بھی کھڑے میرا انتظار کر رہے تھے،اور یہی کہا کہ جی نے چاہا کہ آپ سے آخری ملاقات بھی ہوجائے۔فرمایا اب بھی ان کا پیغام آتا رہتا ہے۔


اس مکالمے کو اس لیئے یہاں شیئر کر رہا ہوں کہ شاید آج کل کے نفرت زدہ فضاوں میں اس مکالمے سے کسی کو محبت کی خوشبو ملے،اور بات کرنے کا سلیقہ آئے۔

منقول از مفتی منیراحمدطارق کراچی ۔

Post a Comment

0 Comments