About Me

header ads

پِلّے برائے فروخت

 

پِلّے برائے فروخت
پِلّے برائے فروخت

ایک قصبے میں پالتو جانور فروخت کرنے والی ایک دوکان کے باہر، ایک نیا اشتہار آویزاں تھا، جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ ’’پِلّے برائے فروخت ‘‘کتے کے پِلّوں کی خرید و فروخت کے متعلق اشتہارات بچوں کو ہمیشہ سے پرکشش لگتے ہیں۔

صبح کے وقت جیسے ہی دوکان کھلی تو ایک چھوٹا لڑکا، سب سے پہلے اس دوکان میں داخل ہوا، اور دوکاندار کو کہنے لگا، میں پِلّے خریدنا چاہتا ہوں، ان کی کیا قیمت ہے؟

دوکاندار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ نایاب نسل کے خوبصورت پِلّے انتہائی کم داموں کے ساتھ برائے فروخت ہیں، ان کی قیمت تیس ڈالر سے لیکر پچاس ڈالر کے درمیان ہے۔

لڑکے نے اپنی ساری جیبیں الٹ دیں، اور ان سے برآمد ہونے والی رقم گنی تو کل ملا کر دو ڈالر اور سینتیس سینٹ بنے، لڑکا کہنے لگا، میرے پاس تو مطلوبہ قیمت سے رقم کم ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے، کہ میں ان چند ڈالر کے عوض ان پِلّوں کو تھوڑی دیر دیکھ سکوں، اور ان کے ساتھ کھیل سکوں۔

دوکاندار نے خوشدلی سے کہا، ہاں ہاں کیوں نہیں، اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہونٹ سکیڑ کر سیٹی کی آواز نکالی، اور پِلّوں کا نام لے کر جیسے ہی آواز دی، تو دوکان کے اندرونی حصے سے پانچ چھوٹے چھوٹے پلے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نمودار ہونے لگے، نیلی آنکھوں والے سفید روئی کے گالوں کی مانند وہ انتہائی خوبصورت پِلّے تھے، لڑکے نے دیکھا کہ ان پانچوں میں سے آخر والا ایک پِلّا بمشکل لنگڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔ اور باقی پِلّوں کے ساتھ مل کر چلنے کے لیے تقریباً اپنا جسم گھسیٹ رہا تھا۔ اگر کوئی غور سے دیکھتا تو پِلّے کی آنکھوں میں لنگڑاہٹ کی تکلیف کو محسوس کر سکتا تھا۔

چھوٹے لڑکے نے جیسے ہی اس لنگڑاتے ہوئے پِلّے کو دیکھا تو خوشی سے چلانے لگا، اور پرجوش آواز میں کہنے لگا ، شاندار، زبردست ، بالکل یہی، میں اسی طرح کا پِلّا چاہتا تھا، یہ انتہائی خوبصورت اور منفرد ہے، بس میں اب اسے ہی خریدوں گا۔

دوکاندار نے لڑکے کا جوش دیکھتے ہوئے کہا، واقعی ہی بچے بیوقوف ہی ہوتے ہیں، ہمیشہ اچھی چیز کو چھوڑ کر اس کے برعکس کوئی چیز منتخب کرتے ہیں۔ اگر تم اس پِلّے کو لینے میں سنجیدہ ہو تو، میں اپنی طرف سے تمھیں یہ تحفتاً دے سکتا ہوں کیوں کہ یہ پیدائشی ایسا ہے اور جانوروں کے ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا تھا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگ میں قدرتی نقص ہے، جو کسی طرح بھی دور نہیں کیا جاسکتا ، اس کی دیکھ بھال پر ویسے بھی میرا خرچ زیادہ اٹھ جاتا ہے، جس سے میں پریشان رہتا ہوں۔

لڑکا ناراض ہوتے ہوئے چلا کر کہنے لگا، نہیں تم ایسا نہیں کرسکتے، تم اسکی قیمت گھٹا کر اس کے ساتھ زیادتی کررہے ہو، میں یہ پِلّا مفت میں نہیں لے سکتا، میں اس کی اتنی ہی قیمت ادا کروں گا جتنی کسی دوسرے صحت مند پِلّے کی ہے۔ آپ ایسا کرو میرے یہ دو ڈالر اور سینتیس سینٹ ابھی سے پیشگی اپنے پاس رکھ لو اور بقیہ میں آپ کو قسطوں میں پچاس پچاس سینٹ روزانہ دے دیا کروں گا۔

دوکاندار نے حیرت سے اس چھوٹے لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر تم اپنی بیوقوفی پر بضد ہو تو ٹھیک ہے، جیسے تمھاری مرضی۔ مگر میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ تمھیں اسے خریدنا نہیں چاہیے، کیوں کہ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک لنگڑاتا ہوا پِلّا جو شاید کچھ وقت کے بعد چلنے سے بالکل معذور ہوجائے، جو نہ تو تمہاری آواز سن کر دوڑتا ہوا تمھارے پاس آسکتا ہے، نہ ہی اچھل کود کرتے ہوئے تمھارے ساتھ کھیل سکتا ہے، جو پِلّا تمھیں خوشی نہیں دے سکتا تم اسے کیوں خریدنا چاہتے ہو؟

دوکاندار کی یہ بات سن کر، چھوٹے لڑکے نے اپنی پتلون کے پائنچے اوپر کیے اور اسٹیل سے بنی ہوئی اپنی مصنوعی ٹانگوں کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا، میں بھی پیدائشی معذور ہوں، ان مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ، نہ تو میں دوڑ سکتا ہوں اور نہ ہی اچھل کود کر سکتا ہوں، میں کسی کے ساتھ کھیل بھی نہیں سکتا، اسے خرید کر مجھے خوشی حاصل ہوتی ہے یا نہیں ،لیکن اس پِلّے کو کم از کم کوئی ایسا دوست ضرور چاہیے ہے جو اس کے درد کو سمجھتا ہو۔

(ماہنامہ ’’صراط مستقیم‘‘فیصل آباد مئی 2023 میں شائع ہوا۔)

Post a Comment

0 Comments