About Me

header ads

بچے کی تربیت اور والدین کا رول

 

بچے کی تربیت اور والدین کا رول
بچے کی تربیت اور والدین کا رول

آیئے بالکل پہلے دن سے بچے کا تربیتی عمل سمجھتے ہیں۔ آپ کے گھر پہلے بچے کی ولادت ہونی ہے تو والدین اس کی پیدائش سے قبل اپنا اپنا رول اور پالیسی سمجھ لیں۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالی کا ایک عجیب نظام ہے کہ عورت ماں والے رول میں لگ بھگ ہمیشہ پرفیکٹ ہوتی ہے یعنی وہ پیدائشی طور پر ہی ماں ہوتی ہے۔ باپ کمبخت پیدائشی طور پر باپ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ کہ 90 فیصد بچے باپ کی وجہ سے بگڑتے ہیں۔آپ بڑی عمر کے بچوں سے یہ تو سنیں گے

"یار ابو بہت سختی کرتے ہیں"

مگر کبھی یہ نہیں سنیں گے

"یار امی بہت سخت ہیں"

حالانکہ بچے کو سب سے زیادہ ماں ہی ٹوکتی ہے۔ بات صرف سختی کی نہیں جو باپ کرتا ہے بلکہ باپ کی ہی جانب سے کچھ اور عوامل بھی اس میں اپنا رول پلے کر رہے ہوتے ہیں

 بچہ صرف سختی سے ہی نہیں بگڑتا بلکہ دو انتہاؤں کے نتیجے میں بگڑتا ہے۔ پہلی انتہاء یعنی افراط یہ ہے کہ بچے کو بے جا لاڈ دیا جائے اور سر چڑھا لیا جائے۔ اور دوسری انتہاء یعنی تفریط یہ ہے کہ بےجا سختی کی جائے۔ 90 فیصد کیسز میں بچے کے بگڑنے اور خراب ہونے کی وجہ انہی دونوں میں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ ماں لاڈ اٹھائے تو کوئی حرج نہیں۔ مگر باپ کو اس کی اجازت کسی صورت نہیں۔

وجہ اس کی ماں باپ کے رول میں مخفی ہے۔ ماں کا رول پالنے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ماں کو زیادہ فکر مند بچے کی خوراک، پوشاک اور صحت سے متعلق پائیں گے۔ باپ کا رول نگہبان کا ہے۔ بچے کے وجود کی سیکیورٹی اور اس کے اخلاق کی سیکیورٹی۔ یہی وجہ ہے کہ باپ کو آپ اکثر بچے کے حرامی پنوں کی جانب متوجہ پائیں گے۔وہ گھر سے دور تو نہیں جا رہا ؟ وہ غلط لڑکوں کے ساتھ تو نہیں اٹھ بیٹھ رہا ؟ وہ گالم گلوچ تو نہیں سیکھ رہا ؟ باپ ہمیشہ اسی طرح کی چیزوں پر فوکسڈ نظر آتا ہے۔ سو پالنے والے یعنی ماں کا فطری رول ہی یہ ہے کہ "مہربان" ہوتی ہے۔ حتی  کہ جو مرد بھی غریبوں میں راشن وغیرہ بکثرت بانٹتے ہیں ان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا کہ بہت مہربان ہے۔

جبکہ اچھے نگہبان کا تعارف یہ ہوتا ہے کہ وہ سخت ہے۔ کرکٹ ٹیم میچ تو کوئی نہ جیت رہی ہو لیکن  کھلاڑیوں کےحرامی پنوں کی رپورٹ روز آرہی ہوتو کرکٹ بورڈ انہیں کنٹرول کرنے کے لئے اچھا منیجر ہی لے کر آتا ہے۔ اور جوں ہی تگڑا منیجر دستیاب ہوجاتا ہے تو کہا جاتا ہے

"اب ٹیم سیدھی ہوجائے گی"

اب اگر اس منیجر نے بے جا سختی کی تو ٹیم بغاوت کر جائے گی۔ اور اس نے نرمی کی تو کھلاڑی جوں کے توں رہیں گے۔ چنانچہ آپ نے کرکٹ کے میدانوں میں دیکھا ہوگا کہ پریکٹس سیشن میں بھی منیجر سنجیدہ نظر آتا ہے۔ اس کے چہرے پر تبسم آپ کو خال خال ہی نظر آئے گا۔ ہمیشہ سپاٹ سی شکل بنا کر کھڑا یا بیٹھا ملے گا۔یہ ہے باپ کا رول۔ منیجر نے ٹیم اور باپ نے اولاد کے ساتھ قہقہوں کی روٹیں اختیار کی تو گڑبڑ ہوجائے گی۔ سو باپ کو مہربان ہونے کی اجازت نہیں۔ مہربانی ماں کا رول ہے۔ پلیز اپنے اپنے کریکٹر میں رہئے۔

مگر ایک شاذ و نادر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ بعض مائیں طبعا سخت مزاج ہوتی ہے۔ کسی حرامی پنے پر بچے کی ایسی پھینٹی لگا دیتی ہیں کہ اس کے چودہ طبق روشن کردیتی ہیں۔ سو اس کیس میں عورت ذات چونکہ خود کو بدلنے پر قدرت نہیں رکھتی۔ لھذا اب باپ کو ٹھنڈی تار بننا ہوگا۔ اسے مہربان بننا پڑے گا۔ کیونکہ بچے کے لئے ایوریج سختی بھی ضروری ہے۔ اور اس گوشہ عافیت کا ہونا بھی لازم ہے جہاں وہ بوقت ضرورت پناہ لے سکے۔ جب نارمل صورتحال میں باپ بچے کو کسی تادیبی عمل سے گزارتا ہے تو وہ پناہ لینے ماں کے پاس جاتا ہے۔ اور اس کا یہ جانا بہت ضروری ہے۔ جب کسی دھات کو حسب منشا ڈھالنے کے لئے گرم کرکے ہتھوڑے برسائے جاتے ہیں تو پھر اسے پانی میں ڈال کر ٹھنڈا بھی کیا جاتا ہے۔ سو ماں ٹھنڈے پانی والا رول پلے کرتے ہوئے اسے آغوش میں لے کر ٹھنڈا بھی کردیتی ہے اور سمجھا بھی دیتی ہے

"میں نے کہا تھا ناں کہ مت کرو ورنہ پٹو گے ؟ اب آئندہ خیال رکھنا"

سو اگر ماں ہی طبعا سخت مزاج ہے تو پھر یہ پانی والا رول ہر قیمت پر باپ کو اختیار کرنا ہوگا ورنہ بچہ تباہ و برباد ہوجائے گا۔والدین میں سے دونوں کا سخت یا دونوں کا نرم ہونا بچے کے لئے خطرے کی سب سے بڑی گھنٹی ہے۔

سختی اور نرمی والے موضوع پر ہم باقاعدہ الگ تحریر  بھی لکھیں گے انشاء اللہ کہ یہ سختی اور نرمی ہونی کتنی چاہئے ؟ فی الحال یہ بات ذہن میں بٹھا لیجئے کہ بے جا سختی ہمیشہ انپڑھ باپ دکھاتا ہے کیونکہ ایک تو  اس کے پاس شعور کوئی نہیں ہوتا اور پر سے یہ مشکل قسم کی محنت مزدوری کے ہاتھوں ہروقت تھکن اور غصے کا شکار ہوتا ہے سو اس کا یہ غصہ بیوی یا بچوں پر ہی اترتا ہے۔ جبکہ بے جا نرمی ہمیشہ ماڈرن تعلیم یافتہ باپ دکھاتا ہے۔ کیونکہ اس نے گورے سے سن رکھا ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ سختی بالکل نہیں کرنی چاہئے۔ یہ پڑھا لکھا جاہل یہ نہیں سوچتا کہ گورا باپ سے تو یہ تقاضا کرتا ہے کہ اولاد کے ساتھ سختی بالکل نہ کرنا۔ مگر اولاد کو وہ یہ تلقین ہرگز نہیں کرتا کہ ہمیشہ ماں باپ کا فرمانبردار رہنا۔ کیونکہ اولاد کو تو وہ اٹھارہ سال کی عمر میں والدین سے باغی کرنے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ یہ جو مغرب میں پورن سٹارز کی بھرمار ہے، آپ کا کیا خیال ہے یہ روز صبح ماں باپ کے گھر سے ناشتہ کرکے، تیار ہوکر "ڈیوٹی" پر پہنچتے ہیں ؟ نہیں ! یہ وہی اٹھارہ برس والے باغی بچے ہیں بلکہ اب تو اٹھارہ سال سے کم عمر کے بھی پورن سٹارز دستیاب ہیں۔ ان لوگوں نے اپنا خاندانی نظام اسی طرح تو تباہ کیا ہے۔ عجیب بات نہیں کہ بچہ اگر دس برس سے اوپر کا ہے تو بعض ممالک میں پانچ دن تک پولیس گمشدگی کی رپورٹ ہی درج نہیں کرتی۔ پولیس کا جواب ہوتا ہے

"اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ گئی ہوگی"

آپ ذرا ہمارے خاندانی نظام کا فطری پن تو دیکھئے کہ اگر ہم سمجھنے کے لئے انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال کرلیں تو پہلے بیس سال وہ ہیں جب بچہ مکمل طور پر والدین کا محتاج ہے۔ سو والدین سنبھالتے ہیں۔ درمیان کے بیس سالوں میں دونوں ایک دوسرے کے معاون و مددگار رہتے ہیں۔ اولاد کو ضرورت پڑتی ہے تو والدین مدد کر دیتے ہیں۔ والدین کو ضرورت پڑے تو اولاد آگے بڑھ کر سنبھال لیتی ہے۔ جبکہ آخری بیس سالوں میں والدین بچوں کے اسی طرح محتاج ہوجاتے ہیں جس طرح اولاد زندگی کے پہلے بیس سالوں میں والدین کی محتاج تھی۔ سو اب عمر کے اس حصے میں اولاد والدین کو مکمل طور پر سنبھال لیتی ہے۔ اس کے برخلاف مغرب میں والدین کے پاس عمر کے آخری حصے میں صرف کتنے بلیاں ہی رہ جاتی ہیں۔

ہم مسلمانوں کا تربیت اولاد کا تصور اسی اصول پر استوار ہے کہ خاندان ہمیشہ اپنی فطری حالت میں رہے۔ نہ بچپن میں بچے کو کتا کاٹے اور نہ ہی بڑھاپے میں والدین کو گفتگو کے لئے صرف کتے کی ہی سنگت پر مجبور ہونا پڑے گا۔

Post a Comment

0 Comments